محمدشارب ضیاء رحمانی
چارمرحلوں کے انتخاب کے بعداب باری سیمانچل متھلانچل اورکوسی کے علاقہ کی ہے۔یہ 57سیٹیں اعدادوشمارکوبڑھانے کے اعتبارسے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔یہ نہیں بھولناچاہئے کہ جب پورے ملک میں مودی لہرچل رہی تھی تواس وقت بھی سیمانچل ،کوسی میں موجودہ مہاگٹھ بندھن کی ہی جیت ہوئی تھی جب کہ اس وقت لالونتیش الگ الگ تھے۔طارق انور،مولانااسرارالحق قاسمی،تسلیم الدین،پپویادواوران کی اہلیہ سب اسی علاقہ سے کامیاب ہوئے۔اب جبکہ راجد،جدیونے مہاگٹھ بندھن بنایاہے تومسلم ووٹوں کی تقسیم پارٹی کی بنیادپراب نہیں ہوگی۔لیکن امیدواروں اورمقامی ایشوزکی بناپرووٹوں کی تقسیم کاخدشہ بناہواہے۔ کچھ حلقوں میں باغی امیدواربھی کھیل بگاڑسکتے ہیں۔پھرایک تاثریہ بھی ہے کہ آبادی کے اعتبارسے اپنی اپنی ذات برادری کوٹکٹ نہ ملنے کابھی پڑسکتاہے ۔کوسی میں پپویادونے سبھی سیٹوں پراپنے امیدواراتارے ہیں۔پپویادوکی پارٹی جن ادھیکارمورچہ نے تقریباََان ہی برادریوں کے لوگوں کوٹکٹ دیاہے جس ذات کے امیدوارمہاگٹھ بندھن سے لڑرہے ہیں۔یعنی پپویادوبہرصورت بی جے پی کوفائدہ پہونچارہے ہیں اوران کاٹارگیٹ یادوووٹ میں سیندھ مارکرمہاگٹھ بندھن کونقصان پہونچاناہے۔
متھلانچل کی کئی سیٹوں پرسہ طرفہ مقابلہ ہے۔مدھوبنی ضلع میں چھ سیٹوں پرمہاگٹھ بندھن اوربی جے پی کی سیدھی لڑائی ہے۔اوردودوپرکمیونسٹ پارٹی اورسماجوادی پارٹی نے مقابلہ کوسہ طرفہ بنادیاہے۔ان میں سے دومہاگٹھ بندھن کے باغی ہیں۔بسفی سے فیاض احمدمہاگٹھ بندھن اورمہنت کماریادواین ڈی اے کے امیدوارہیں۔راشٹروادی اورسماجوادی نے یہاں بھی مسلمان کوٹکٹ دیاہے۔بسفی میں این ڈی اے کوبھی بغاوت کاسامناکرناپڑرہاہے۔سابقہ این ڈی اے نے2010کے الیکشن میں سات سیٹیں جیتی تھیں۔اورتین راجدکے حصہ میں گئی تھیں۔مہاگٹھ بندھن نے سات سیٹنگ ایم ایل اے کومیدان میں اتاراہے۔یہاں ترقیاتی ایجنڈے کی بجائے ذات برادری کے نام پرووٹوں کے ارتکازکی کوشش ہے ۔مہاگٹھ بندھن کے پاس ان سات سیٹوں کوبچانے کاچیلنج ہے وہیں این ڈی اے اپنی تعدادبڑھانے کی کوشش میں ہے۔2000میں بھاجپاامیدواررام دیومہتونے راج کمارمہاسیٹھ سے یہ سیٹ بمشکل چھین لی تھی۔راجدکے باغی اورسماجوادی امیدوارنیراعظم بھی سیندھ ماری کی کوشش میں ہیں جس سے مہاگٹھ بندھن کونقصان ہوسکتاہے۔
دربھنگہ کی دس سیٹوں میں بہت سی ایسی سیٹیں ہیں جہاں سے اس برادری کے امیدوارہیں جن کی آبادی وہاں کم ہے۔اکثریتی آبادی کواس بات پرغصہ ہے کہ اس کے امیدوارکوٹکٹ کیوں نہیں دیاگیا۔کئی امیدوار اپنی پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے پردوسری پارٹی سے الیکشن لڑرہے ہیں۔جن کامقصدیہ ہے کہ وہ خودجیتیں یانہ جیتیں اپنابخارنکال لیں گے۔جالے کی صورتحال بھی مہاگٹھ بندھن کیلئے حوصلہ افزاء نہیں ہے۔یہاں مجیب الرحمان کے سماجوادی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑنے سے مہاگٹھ بندھن کوسخت چیلنج درپیش۔علاقائی لوگوں کاکہناہے کہ مہاگٹھ بندھن نے جسے امیدواربنایاہے وہ کمیونل مائینڈکاہے،علاقہ کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے لہٰذااپناامیدوارہوناچاہئے۔پہلاسوال تویہ ہے کہ اگرمجیب صاحب جیت بھی جاتے ہیں۔اوربالفرض بی جے پی حکومت سازی کے قریب ہوتی ہے ایسے میں اسے حمایت کی ضرورت ہوگی اورملائم سنگھ جن کی شطرنجی چال سب سمجھ چکے ہیں،نے این ڈی اے کوکسی سودے بازی پرحمایت دے دی توسماجوادی کے مجیب صاحب یاتھرڈفرنٹ کے دوسر ے ایم ایل اے اس بات کی کیاضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے سپریموکے خلاف ہوں گے اوررکنیت سے استعفیٰ دے دیں گے۔پھرمجیب صاحب کواگرسار ے مسلم ووٹ مل بھی گئے توصرف مسلم ووٹ کی بنیادپروہ کامیاب نہیں ہوسکتے جب کہ دوسرے مہاگٹھ بندھن کے امیدوارکومسلمانوں کے ساتھ دوسری قوم کابھی ووٹ مل رہاہے۔ایسے میں نہایت حماقت ہوگی کہ مجیب صاحب کاسپورٹ کیاجائے ،یہاں امیدوارکونہ دیکھ کرصرف پارٹی بنیادپرفیصلہ کرناچاہئے۔ اس کے علاوہ سیمانچل میں طارق انوربھی تال ٹھوک رہے ہیں لیکن انہیں کسی کے خطرناک ہونے کاپتہ بہت دیرمیں
چلتاہے۔لالواورنتیش کوسمجھنے میں کافی وقت لگ گیااوران کے استحصال اوراستعمال کی سیاست طارق صاحب کواگست2015میں معلوم ہوئی پھروہ تھرڈفرنٹ میں تشریف لے گئے لیکن پھرستمبر2015میں ملائم کااندازہ ہوا۔اوروہ تھرڈفرنٹ سے الگ ہوگئے ۔جانکاربتارہے ہیں کہ سیمانچل میں اویسی صاحب کی موجودگی نے مقابلہ کودلچسپ بنادیاہے۔لیکن ملت کے ہمدردوں کی یہ دلچسپی صر ف چھ سیٹوں پرہے۔تجزیہ نگاران کی موجودگی کومہاگٹھ بندھن کے حق میں مضرقراردے کراپنی توانائی ان ہی سیٹوں پرصر ف کررہے ہیں۔لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیمانچل کی چوبیس میں سے تیرہ سیٹیں پہلے سے ہی بی جے پی کے پاس ہیں۔مجلس کی چھ سیٹوں کے علاوہ باقی اٹھارہ سیٹیں منظرنامے سے کیوں غائب ہیں؟۔جہاں ایس پی،کمیونسٹ پارٹی،بہوجن سماجوادی پارٹی ،مسلم لیگ اوراین سی پی مسلمانوں کوٹکٹ دے کرمہاگٹھ بندھن کونقصان پہونچارہی ہے۔اوراس سے ووٹوں کی تقسیم کاخدشہ نہیں یقین ہے۔قوم کے ہمدردوں کوچاہئے کہ وہ چھ سیٹوں پرتوجہ مرکوزکرنے کی بجائے باقی اٹھارہ سیٹوں کوبھی دیکھیں۔مثلاََٹھاکرگنج سیٹ سے جدیونے نوشادعالم کوٹکٹ دیاہے اوراین ڈی اے نے گوپال کماراگروال کوامیدواربنایاہے لیکن اس حلقہ میں سماجوادی،جے اے پی اورجنتادل راشٹروادی نے مسلم امیدواراتارکرووٹوں کی تقسیم کاکھیل کھیلاہے۔اسی طرح بہادرگنج سے توصیف عالم کانگریس کے امیدوارہیں،بی جے پی نے یہاں ادودھ بہاری سنگھ کوامیدواربنایاہے، دوسری طرف سماجوادی پارٹی نے حسنین مرزا،این سی پی نے محمدمنصورعالم ،جنتادل راشٹروادی نے محمدنسیم اختراورمسلم لیگ نے شکیل اخترکوٹکٹ دیئے ہیں۔ارریہ سے عبیدالرحمان کانگریس امیدوارہیں جب کہ اجے کمارجھااین ڈی اے امیدارہیں۔یہاں بھی صرف جھاجی ہی ہندوہیں باقی سب مسلمان امیدوارایس پی وغیرہ سے ہیں۔قصبہ پورنیہ سے محمدآفاق عالم کوکانگریس نے امیدواربنایاہے اوربی جے پی سے پردیپ کمارداس کھڑے ہیں۔جبکہ این سی پی ،سی پی آئی وغیرہ نے مسلم امیداراتارے ہیں۔ان کے علاوہ پران پورکٹیہارسے کانگریس نے محمدتوقیرعالم کوٹکٹ دیاہے ،ونودسنگھ کوبی جے پی سے ٹکٹ ملاہے لیکن بی ایس پی ،این سی سمیت سبھی پارٹیوں نے مسلم امیدواراتاردیئے ہیں۔یہ تفصیل اسلئے بیان کی گئی ہے کہ صر ف مجلس کی چھ سیٹوں کونگاہ میں رکھ کرانہیں نظراندازنہیں کیاجاسکتاہے۔ہمارے سامنے دہلی کاآئیڈیل موجودہے ۔یہاں بھی تین محاذتھے،بی جے پی،کانگریس اورآپ لیکن مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو(مصطفٰی آبادکوچھوڑکر)تقسیم نہیں ہونے دیااورایک طرفہ ووٹنگ کرکے اپنی اہمیت کااحساس دلایا،سیمانچل اورمتھلانچل بھی مسلم اکثریتی علاقے ہیں مسلمانوں کے سامنے بس یہ لائحہ عمل ہوناچاہئے کہ مقابلہ مہاگٹھ بندھن اوراین ڈی اے کے درمیان ہے۔اس لئے مقابلہ سہ رخی بنانے کی بجائے آمنے سامنے ہواورمہاگٹھ بندھن کوکامیاب بنائیں۔ پورے سیمانچل ،متھلانچل اورکوسی میں اسی طرح ووٹنگ کریں جس طر ح باقی پوری ریاست میں مسلمانوں نے متحدہوکرمہاگٹھ بندھن کوووٹ دیا ہے ۔سیمانچل اورمتھلانچل نہایت اہمیت کاحامل ہے،اس لئے ضروری ہے کہ یہاں مسلم ووٹ تقسیم نہ ہونے پائے۔ہاں مسلم پارٹی کی نمائندگی بھی اب وقت کی ضرورت ہے تاکہ بلیک میلنگ ،استحصال اوراستعمال کی سیاست کے کل وقتی حل کی امیدجاگ سکے۔ اس لئے اگرمجلس دوتین سیٹ پربھی جیتنے کی پوزیشن میں ہے تووہاں مقابلہ این ڈی اے بنام مجلس ہوناچاہئے۔بی جے پی سے تال میل کاالزام اس وقت درست ہوتاجب اسدالدین اویسی بہارکی سبھی یابیشترسیٹوں پرالیکشن لڑتے،یہ توان کی سیاسی دانشمندی ہے کہ کم سے کم یعنی صرف چھ سیٹوں پرانہوں نے الیکشن لڑنے کافیصلہ کیا۔یوپی اورمہاراشٹرکے پنچایت الیکشن کے نتائج بھی مجلس کوتقویت دیں گے ۔چنانچہ اویسی صاحب نے بھی ان چھ سیٹوں کے علاوہ باقی تمام سیٹوں پرمہاگٹھ بندھن کی حمایت کااعلان اوران کوووٹ دینے کی اپیل کی ہے۔ لہٰذاصرف اپناسیاسی وجودثابت کرنے کیلئے جیتتے ہوئے مجلس کے امیدوارکوکامیاب بنائیں اورباقی حلقوں میں مہاگٹھ بندھن کوووٹ دیں اس کے علاوہ ادھرادھرووٹ دے کرمسلمان اپنی اہمیت کم نہ کریں۔زیادہ ترسیٹوں پرسماجوادی یاجن ادھیکارپارٹی نقصان پہونچارہی ہے۔پپویادوتواین ڈی اے میں گھاس نہ ڈالے جانے کی وجہ سے تھرڈفرنٹ میں شامل ہوئے ،نیزملائم کے جس طرح کے رویے سامنے آئے ہیں،ان سے بے حداحتیاط ضروری ہے ۔